یہ مضمون اُس مقالے کا توسیع شدہ اور معمولی حد تک ترمیم شدہ نسخہ ہے جو پہلی مرتبہ جولائی 2025ء میں انگریزی زبان میں Adi Magazine میں شائع ہوا تھا، اور اجازت سے Encounters میں دوبارہ شائع اور ترجمہ کیا گیا ہے۔
تعارف
یہ مضمون غزہ میں لکھا گیا ہے، اس جگہ پر جہاں زندگی روزانہ بقا کی زبان میں ترجمہ ہوتی ہے۔ محاصرے میں لکھنا اور ترجمہ کرنا ایک دوہری زندگی بسر کرنے کے مترادف ہے: ایک زندگی جو کھنڈرات، کمیابی اور مسلسل تشدد کے درمیان گزرتی ہے، اور دوسری جو الفاظ میں جاری رہتی ہے، ایسے الفاظ جو سرحدوں کو پار کرنے اور ایک نادیدہ قاری سے مخاطب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس تناظر میں ترجمہ محض ایک فنی یا میکانکی عمل نہیں رہتا بلکہ شہادت دینے کا ایک طریقہ بن جاتا ہے؛ موجودگی کا ایک اخلاقی عمل، جو ہر خطرے کے باوجود، بمباری سے خاموش کر دی گئی آوازوں کو دوسرے دائرہ ہائے قبول تک پہنچانے کی جستجو کرتا ہے۔
جب میں نے یہ تاثرات پہلی بار قلم بند کیے تھے، تو یہ گمان بھی نہ تھا کہ یہ کتنا طویل سفر طے کریں گے۔ آج جب میں انہیں چینی، ڈچ، فرانسیسی، جرمن، یونانی، عبرانی، اطالوی، کوریائی، کُردی، نارویجین، فارسی، رومانی، روسی، ہسپانوی، اردو اور عربی میں منتقل دیکھتی ہوں، تو یہ حقیقت ایک بار پھر یاد دلاتی ہے کہ زبان—انسانوں کے برعکس—محاصرہ برداشت نہیں کرتی۔ الفاظ قید سے انکار کرتے ہیں۔ وہ غیر متوقع آزادی کے ساتھ سفر کرتے ہیں، شکستہ جغرافیوں کے درمیان باریک مگر ناگزیر پُل قائم کرتے ہیں۔
اب یہ نوٹ میں آئرلینڈ سے لکھ رہی ہوں، ایک بالکل مختلف منظرنامے سے، لیکن مضمون کی جڑیں بدستور غزہ کے کھنڈرات اور اس کی اٹل یادداشت میں پیوست ہیں۔ یہ صرف میرے ذاتی تجربے کی کہانی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی حالت کا بیان بھی ہے: مترجم بطور گواہ، جو زخموں اور الفاظ کے درمیان، ناقابلِ ترجمہ اور ترجمے کی ناگزیر ضرورت کے بیچ راستہ تلاش کرنے پر مجبور ہے۔
لہٰذا، اس تحریر کو محض خودنوشت یا رپورٹنگ کے طور پر نہ پڑھا جائے۔ یہ دراصل ایک جستجو ہے: آفت کے زمانے میں زبان کی سیاست پر غور۔ یہ سوال اٹھاتی ہے کہ معنی کو تقسیموں کے پار لے جانا کیا مفہوم رکھتا ہے، اور کیا ترجمہ، خواہ عارضی طور پر ہی کیوں نہ ہو، مٹائے جانے کے خلاف مزاحمت اور انسانی موجودگی کے تحفظ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
مترجم ایک معدوم ہوتی ہوئی دنیاؤں کا گواہ
فلسطینی مترجم ہونا اس بات کے مترادف ہے کہ وہ ایک معدوم ہوتی ہوئی دنیا اور اس دنیا کے بیچ واسطہ بنے جو عمومااس کے معدوم ہونے کے اعتراف سے گریزاں ہے۔ یہ سکوت کی گہری کھائی سے گزر کر آوازوں کو اس پار لے جانے کا نام ہے۔یہ مفہوم کو لسانی و سیاسی بگاڑ کی فصیلوں سے چھپا کر گزارنے کی جسارت سے عبارت ہے۔ یہ اپنی تاریخ کو محو کیے جانے سے انکار کا عہد ہے، اس یقین کے ساتھ کہ اس کے الفاظ اپنی قوم کے ساتھ دم نہ توڑنے پائیں۔ مترجم کا کام صرف لفظوں کو منتقل کر دینا نہیں؛ وہ ضیاع کا ذخیرہ گر ہے، محو کیے جانے کے عمل کو دستاویزی شکل دیتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ گواہی کی سب سے نحیف سرگوشی بھی محاصرہ توڑ کر دنیا کے کانوں تک پہنچ جائے۔ آج کے غزہ میں ترجمہ صرف ذہنی ریاضت یا فکری مشق نہیں رہ گیا۔ یہ زندگی کو بچانے کا وسیلہ اور نسیان کے مرض کے خلاف ایک ہتھیار ہے۔غزہ سے ترجمہ کرنے کا مطلب صرف نسل کشی کی داستان رقم کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کے ان لمحات کو بھی محفوظ کرنا ہے جنھیں جنگ نیست و نابود کرنا چاہتی ہے: فضائی حملے سے پہلے کھلنے والے نارنگی کے شگوفوں کی مہک، صبح تک شاید باقی نہ رہنے والے شہر پر گونجتی اذان، یا اس کمرہ جماعت میں اشعار دہراتے بچے کی آواز جو کسی بھی لمحے ملبے میں بدل سکتا ہے۔ یہ باریکیاں محاصرے کی سنگ دلی کے خلاف بغاوت ہیں، اور غزہ کو صرف دکھ کی ایک بے روح تجرید میں ڈھلنے سے بچا لیتی ہیں۔ ترجمہ نگاری صرف ذہنی ریاضت یا فکری مشق نہیں ہے، یہ زندگی کو بچانے کا وسیلہ اور نسیان کے مرض کے خلاف ایک ہتھیار ہے۔
والٹر بینجامن نے اپنے مضمون ’The Task of the Translator‘ میں ایک بار لکھا تھا کہ حقیقی ترجمہ کسی متن کو ایک نئی حیات عطا کرتا ہے، یہ صرف معنی کی منتقلی سے عبارت نہیں ہوتا، بلکہ اصل کی بقا کو بھی یقینی بناتا ہے۔ لیکن نئی حیات کے کیا معنی ہیں، جب اصل تحریر ملبے میں دفن ہو چکی ہو؟ جب شاعر کو شہید کر دیا گیا ہو؛ جب گھر کو مسمار کر دیا گیا ہو؛ جب متن کا مصنف شاید اب زندہ نہ ہو کہ اپنے الفاظ کو دوسری زبان کی دہلیز پار کرتے دیکھ سکے؟ فلسطینی مترجم کے لیے یہ سوال کوئی نظری بحث نہیں،بلکہ ایک فوری، جاں گسل اور بے رحم حقیقت ہے۔ میں جو کہانیاں ترجمہ کرتی ہوں ، ان کا ماخذ دستاویزات کا دفاتر نہیں ہے، بلکہ وہ اجڑے ہوئے مکانوں کے کھنڈرات سے برآمد ہوتی ہیں، بمباری کے درمیانی لمحوں میں لکھی جاتی ہیں، اور ان لوگوں کی سانسوں پر سوار ہو کر آتی ہیں جو شاید دوبارہ انھیں سنانے کے لیے زندہ نہ رہیں۔
اہل فلسطین کی آواز سننے کے لیے دنیا نے ہمیشہ یہ شرط رکھی ہے کہ انھیں ترجمے کی چھلنی سے گزارا جائے۔ ایک ماں اگر فضائی حملے کے ملبے میں اپنے جگر کے ٹکڑے کو پکارتی ہے تو بھی اس چیخ کو کافی نہیں سمجھا جاتا،اس رنج و الم کو پہلے دھیمے لہجوں میں ڈھالا جاتا ہے، پردوں میں لپیٹا جاتا ہے، اور اس طرح سنوارا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا کو راس آئے جو المیہ تو چاہتی ہے، مگر صرف انسانی ہمدردی کی رپورٹوں اور بے نام و نسب خبروں کی سرخیوں میں۔ لیکن مجھے بخوبی ادراک ہے کہ جب کہانیاں اپنی اصل ہیئت پر برقرار رہیں اور اس قالب میں ڈھلنے سے انکار کر دیں جس کا مطالبہ کبھی کبھی ترجمہ کرتا ہے تو اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ انھیں ضرورت سے زیادہ خام، نہایت فوری اور از حد تکلیف دہ قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا ہمیشہ ایسے مانوس بیانیوں کو ترجیح دیتی ہے جو اس کے احساسِ استحکام کو قائم رکھیں، نہ کہ ان کو جو اسے رخنہ اندازی اور مزاحمت کے زورسے تہ وبالا کر کے رکھ دیں۔ یوں ترجمہ محض ضرورت نہیں، بلکہ ایک اخلاقی معرکہ بن کر ابھرتا ہے: ایسی زبان کی جستجو جو معدومیت اور مانوسیت دونوں کے خلاف ڈٹ جائے، جس میں درد بغیر کسی چھان پھٹک کے باقی رہ سکے، اور ساتھ ہی ان لسانی چوکیوں سے گزرنے کے قابل بھی ہو جو فیصلہ کرتی ہیں کہ کس درد کو تسلیم کیا جائے اور کس کو نظرانداز۔
جس کہانی کا بھی میں نے ترجمہ کیا، اس پر کام کرتے وقت میں اس کشمکش سے گزری ہوں۔ ArabLit کے ایک مشترکہ کتابی منصوبے کے تحت میں نے محمد تیسیر کی کہانی ’نوارس تنتظر شاطئًا لا يصل‘ (وہ آبی پرندے جو ایک ایسے ساحل کا انتظار کرتے ہیں جو کبھی نہیں آتا) پر کام کیا۔ یہ ایک ایسے بے گھر شخص کی داستان ہے جو ایک ننھی بچی کو دیکھتا ہے جو ایک مویشی بردارٹرک کی اگلی نشست پر اپنی ماں سے لپٹی بیٹھی ہے اور اس کے بال ننھے پھولوں سے آراستہ ہیں۔ اصل عربی میں اُس کی نیلی پوشاک کے بارے میں جو لفظ آیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے: " 'گویا وہ کھل اٹھی تھی'، یہ ایک نازک اور لطیف سا لفظ ہے، جو اس محبوس و مقید رعنائی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جسے ٹرک کے انجن کے ڈیزل کے گھٹن زدہ دھوئیں نے مسل کر رکھ دیا ہے۔ اس کا ترجمہ کرتے ہوئے مجھے ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ انگریزی میں یہ فقرہ اپنا وزن کو کھو دینے کے خطرے سے دوچار تھا۔ عربی میں بات بالکل واضح تھی: لباس، بچی، مستقبل؛ سب کو اپنے کھلنے اور شگفتہ ہونے کے لمحے سے محروم کر دیا گیا تھا۔ لیکن انگریزی میں کیا میں قاری پر بھروسا کر سکتی تھا کہ وہ یہ سب محسوس کرے؟ یا وہ یوں ہی سرسری گزر جائے گا، جیسے لوگ ان تمام المیوں سے گزر جاتے ہیں جو ان کے اپنے نہیں ہوتے؟
سوال یہ ہے کہ اس رنج و الم کو کیسے اس زبان میں منتقل کیا جائے جس کی تربیت ہی اس کو غیر مؤثر بنانے پر ہوئی ہے؟ کوئی کس طرح ایک اجڑے ہوئے گھر کی سچائی کو ایسی دنیا کی لغت میں منتقل کر سکتا ہے جس نے اس کی تباہی کو بہت پہلے ہی معمولی بنا رکھا ہے؟ ہر زبان کی اپنی حدود ہوتی ہیں، لیکن انگریزی (خاص طور پر مین اسٹریم میڈیا، سفارتی بیان بازیوں اور 'فریقین' کے بیانیوں کی انگریزی) اس طرح احتیاط سے تراشی گئی ہے کہ فلسطینی کرب و بلا کو اس کے اپنے اختیار سے محروم کر دے، جس میں قتل عام کو "کشیدگی" اور محاصروں کو "سیکیورٹی اقدامات" تک گھٹا دیا جاتا ہے۔ غزہ کے المیے کو اس زبان میں ڈھالنا دراصل ان ساختیات کے خلاف جنگ ہے جو اس کی حقیقت کو دھندلا کرنے کے لیے وضع کی گئی ہیں۔ یہ وہ جلاوطنی ہے جو فلسطینی مترجم کو سہنی پڑتی ہے: دو دنیاؤں کے بیچ معلق رہنا، جن میں سے کوئی بھی مکمل طور پر اس کی اپنی نہیں ہے۔
حتی کہ ترجمہ نگاری کے دوران میں بھی مجھے یہ ادراک رہتا ہے کہ زبان بذات خود ایک جلاوطنی ہے۔ میں عربی اور انگریزی کے بیچ معلق ہو کر رہ گئی ہوں۔ عربی، جو غم، اپنائیت، اور اس بے ساختگی کی زبان ہے جس کا ترجمہ ممکن نہیں اور انگریزی، جو سفارت کاری، فاصلے ، اور خوبصورتی سے درجہ بندی سے گزارے گئے تشدد کی زبان ہے۔ عربی میں نقصان کا بوجھ بالکل نمایاں ہے۔ ایک ماں محض بچہ 'کھو' نہیں دیتی، بلکہ وہ سوگوار ہو جاتی ہے، اجڑ جاتی ہےاور اس کا وجود بکھر کر رہ جاتا ہے۔ لیکن انگریزی میں نقصان ایک ساکت و جامد اور طبی سا احساس دلاتا ہے، جیسے کوئی ایسی چیز جو بس ہو گئی ہو۔ بم "نشانے پر لگتا ہے"، گھر "مسمار ہو جاتا ہے"، بچہ "مارا جاتا ہے" گویا کہ کوئی ذمہ دار ہی نہیں۔ ترجمے کا عمل ان لسانیاتی ڈھانچوں سے برسرِ پیکار ہونا ہے اور قبضے کی گرامر کو مسترد کر کے اس روحِ اختیار کو ان جملو ں میں پھر سے پھونک دینا جو اسے مٹانے کے لیے تراشے گئے تھے۔
جنگ کا ترجمہ کرنے کی اخلاقیات
ترجمہ ہمیشہ غداری کا عمل رہا ہے۔ اطالوی ترجمہ ہمیشہ غداری کا عمل رہا ہے۔ اطالوی جملہ "traduttore, traditore" (مترجم، غدار) اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ترجمے میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ضائع ہو جاتا ہے، اور مفہوم ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہوئے بگڑ جاتا ہے۔ اسی طرح، والٹر بین یامین اپنی تحریر "The Task of the Translator" (مترجم کا کام) میں کہتا ہے کہ ترجمہ ایک ایسا عمل ہے جو لازمی طور پر اصل کو بدل دیتا ہے؛ مفہوم کبھی محض منتقل نہیں ہوتا بلکہ نئے سرے سے تخلیق، ترتیب اور واضح کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک فلسطینی مترجم کے لیے یہ غداری بہت زیادہ سنگین نتائج کی حامل ہو سکتی ہے: ترجمہ مفہوم کی جنگ کا میدان بن جاتا ہے—ایک ایسا تناؤ بھرا مذاکراتی عمل، جہاں ہر لفظ ایک اخلاقی معمہ بن جاتا ہے اور ہر جملہ طاقت کے ساتھ ٹکراؤ کا سبب! ترجمے میں موجود غداری اب جمالیات یا وفاداری کا سوال نہیں رہتی، بلکہ بقا کا مسئلہ بن جاتی ہے۔
غزہ کا ترجمہ کرنا محض درست الفاظ تلاش کرنا نہیں، بلکہ ان کانوں کی جستجو بھی ہے جو سننے پر آمادہ ہوں۔ فلسطینی مترجم ایک ناقابلِ برداشت تناؤ کی حالت میں رہتا ہے—ایک طرف خام سچائی کی اشد ضرورت، اور دوسری طرف وہ عالمی مکالمہ کی دہلیز جو رد کرنے سے مشروط ہو کر رہ گئی ہے۔ صرف درست ہونا کافی نہیں؛ غم کو اس صورت میں ڈھالنا پڑتا ہے جو ایک ایسی دنیا سے گزر سکے جس نے مظلوم کو نظر انداز کرنے کی تربیت لی ہوئی ہے۔ یہ محض لسانی تبدیلی کا معاملہ نہیں بلکہ برداشت کا عمل ہے؛ مزاحمت کی محنت ہے۔ یہ محض زبان ڈھونڈنے کا کام نہیں بلکہ تباہی کو اس طرح محفوظ کرنا ہے کہ اس کا زہریلا اثر ضائع نہ ہونے پائے—بغیر اس کے کہ وہ تشدد جو ایک گھر کو ملبے میں بدل دے محض ایک استعارہ بن کر رہ جائے، یا ایک بچے کی موت محض ایک شماریہ ہو۔ یہاں ترجمہ مزاحمت کی ایک صورت بن جاتا ہے: یادداشت کو ایک ایسی دنیا میں لے جانے کا ذریعہ جو بھول جانے پر تلی ہو، اور یہ اصرار کہ اگرچہ اصل درد ناقابلِ ترجمہ ہے، پھر بھی اسے سنا جانا چاہیے۔
اس بوجھ کو مرحوم رفعت العریر (شاعر، استاد اور مدیر) سے زیادہ قریب سے شاید ہی کسی نے جانا ہو—جن کی زندگی اور کام خاموشی کے انکار کا نمونہ تھے۔ غزہ سے تعلق رکھنے والی ایک نمایاں ادبی آواز، العریر نہ صرف غیر معمولی وضاحت رکھنے والے لکھاری تھے بلکہ ان آوازوں کے نگران بھی جو جنگ کے دھوئیں اور میڈیا کی تطہیر میں اکثر دب جاتی تھیں۔ اپنی انقلابی کتاب "Gaza Writes Back" (غزہ کا تحریری جواب) میں انہوں نے کہانیاں اس لیے جمع نہیں کیں کہ غزہ کی شبیہ نرم ہو یا اسے عالمی ہمدردی کے قابل بنایا جائے۔ اس کے برعکس، انہوں نے کہیں زیادہ نازک، براہِ راست، بے لاگ قربت والا مواد پیش کیا۔ ان کے جمع کیے گئے لکھاری اپنی شناخت دوسروں کی سہولت کے لیے ترجمہ نہیں کر رہے تھے؛ وہ اس بیانیاتی جگہ کا دعویٰ کر رہے تھے جو ایک طویل عرصے سے ان سے چھینی گئی تھی۔ ان کی کہانیاں انسانیت دوستی کی اس لغت کو مسترد کرتی تھیں جو غیر فعال جملوں اور محفوظ بیانیے میں لپٹی ہو۔ انہوں نے تجریدی زبان نہیں بلکہ براہِ راست، سادہ زبان میں بات کی: سوئے ہوے بچوں پر گرائے گئے بموں کی، چوکیوں پر محبت کرنے والوں کے بچھڑ جانے کی، ڈرون حملوں سے ٹوٹنے والے خوابوں کی۔ العریر کا اداریاتی نظریہ غزہ کے درد کو جمالیاتی روپ دینے یا اسے استعارہ بنا کر آفاقی بنانے کے لیے نہیں تھا۔ اس کی بجائے وہ اس حق پر اصرار کرتے تھے کہ صاف صاف بولا جائے، تحریف کے بغیر دستاویز کیا جائے، اور اس توقع کو رد کیا جائے کہ فلسطینی غم کو سمجھنے کے نام پر مٹایا یا کم کیا جائے۔ ان کا یقین واضح تھا: فلسطینی لکھاریوں کو اپنی حقیقتوں کو قابلِ قبول بنانے کے لیے ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں، انہیں بس اپنی شرائط پر سنا جانا چاہیے۔ ان کے فلسطینی بیانیے نہ سیاسی مباحثے کے خام مواد تھے اور نہ ہی انسانی ہمدردی کے لیے ترس پیدا کرنے کا ذریعہ؛ وہ ادب تھے—فوری، ضروری، اور ناقابلِ نظرانداز۔
العریر کے کام کی اصل اہمیت یہ نہیں تھی کہ اس نے غزہ کو دنیا کے لیے زیادہ قابلِ فہم بنا دیا؛ بلکہ یہ تھی کہ اس نے اس سے پہلوتہی کو ناممکن بنا دیا۔ ان کے بیانیے غیر ملکی معیار پر سمجھے جانے کی درخواست نہیں کرتے تھے۔ وہ اصرار کرتے تھے کہ انہیں ان کی اپنی شرطوں پر سنا جائے۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ انہیں نشانہ بنایا گیا۔ ان کا قتل صرف ایک محبوب لکھاری اور استاد کا قتل نہیں تھا؛ بلکہ از خود زبان پر ایک حملہ تھا—ایک سوچی سمجھی کوشش، ایک ایسی قوم کی آواز کو ختم کرنے کی جو خاموش رہنے سے انکار کرتی ہے۔ لیکن العریر کا کام زندہ جاوید ہے۔ ہر ترجمہ شدہ سطر، ہر صفحہ جو ناکہ بندی سے باہر جاتا ہے، ایک انکار ہے۔ اور یہ انکار صرف بھولنے کے خلاف نہیں بلکہ ان شرائط کے خلاف ہے جن پر فلسطین کو طویل عرصے سے بولنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
ترجمے کی اہمیت غزہ اور فلسطین سے آگے بڑھ کر نوآبادیاتی اور جلاوطن قوموں کی وسیع جدوجہد تک پھیلی ہے، جہاں زبان ہمیشہ ایک جنگی میدان رہی ہے۔ فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب Reflections on Exileمیں لکھا کہ جلاوطنی محض بے وطنی کی کیفیت نہیں، بلکہ ایک "contrapuntal awareness" ہے: ایسی حالت جس میں انسان کو بیک وقت کئی دنیاؤں میں جینا پڑتا ہے، کھوئے ہوئے وطن کی تڑپ اور اس نقصان کو اجنبی زبانوں میں بیان کرنے کی ناگزیر ضرورت کے درمیان معلق۔ فلسطینی مترجم بھی اسی شگاف میں موجود ہے، اسی زخم پر کھڑا ہے۔
لیکن ترجمہ محض نقصان کا ریکارڈ نہیں؛ یہ واگزاری کا عمل بھی ہے، اس ضد کا اظہار کہ زبان پر قبضہ کرنے والے کو معنی کا فیصلہ کرنے نہ دیا جائے۔ ترجمہ—خصوصاً عربی سے انگریزی میں—اصلاً ایک سیاسی عمل ہے کیونکہ یہ ان لسانی درجہ بندیوں کو توڑتا ہے جو طے کرتی ہیں کون سی آوازیں سنی جائیں اور کون سی دب جائیں۔ محمود درویش کی شاعری، جب ترجمہ ہوتی ہے، تو صرف فلسطینی دکھ کو عالمی ادب تک نہیں لاتی؛ یہ ان ساختوں کو للکارتی ہے جو فلسطینی شناخت کو حاشیے پر رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اپنی نظم "Earth presses against us" میں وہ پوچھتے ہیں: "ہم آخری سرحد کے بعد کہاں جائیں؟"—یہ سوال ہر جلاوطن کو ستاتا ہے، ہر اس قوم کو جس کی زندگی ان سرحدوں سے جکڑی ہو جنہیں انہوں نے خود نہیں چُنا۔ مترجم جب ان الفاظ کو ایک زبان سے دوسری زبان میں لے جاتا ہے تو وہ اس سوال کو زندہ رکھتا ہے، دنیا کو مجبور کرتا ہے کہ وہ جواب دے، چاہے دنیا کتنا ہی انکار کرے۔
مگر اس کوشش میں ایک جدوجہد بھی شامل ہے۔ فلسطینی بیانیوں کو انگریزی میں منتقل کرنا—جو کبھی نوآبادیاتی حکمرانوں کی زبان تھی، جو آج بھی میڈیا میں اسرائیلی قبضے کو "تنازعہ" کہہ کر پیش کرتی ہے، اور جو ہمیشہ سلطنت کا آلہ رہی ہے—ناگزیر سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا مظلوم کی حقیقت ظالم کی زبان میں پوری طرح سمو سکتی ہے؟ کیا انگریزی فلسطینی غم کی گہرائی کو چپٹا کر دیتی ہے، اس کی شدت چھین لیتی ہے، یا اسے حد سے زیادہ تجریدی بنا دیتی ہے؟ کینیا کے دانشور نگوگی وا تھیونگو اپنی کتاب "Decolonising the Mind" میں کہتے ہیں کہ زبان غیر جانبدار نہیں ہوتی، اور نوآبادیاتی زبان میں لکھنا ایسے ڈھانچے کے اندر لڑنے کے مترادف ہے جو معنی کو مسخ اور دبا دینے کے لیے بنایا گیا ہو۔ لہٰذا فلسطینی مترجم کو مسلسل ایک جنگ لڑنی پڑتی ہے: بگاڑنا، نئے سرے سے ڈھالنا، اور ایک سامراجی زبان کی دراڑوں سے اصل مفہوم کو در آمد کرنا—ایسی زبان جو کبھی اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے بنی ہی نہیں تھی۔
مترجم کس اذیت سے گزرتا ہے؟ کون سنے؟
سب سے تکلیف دہ سوال جو میں اپنے آپ سے پوچھتی ہوں یہ نہیں کہ مجھے ترجمہ کرنا چاہیے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا کوئی سن رہا اُسے دوبارہ زندگی میں لوٹا سکتے ہیں۔ کبھی کبھی ترجمہ بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے—خلا میں بولنے جیسا، ایک ایسے ماحول میں نقصان کی کہانی سنانا جو بالکل غیر متأثر رہتا ہے۔ بطور ایک فلسطینی مترجم، میں ہمیشہ اس بات سے باخبر رہتی ہوں کہ میرے الفاظ کو کس طرح سنا جائے گا، سچ بولنے اور سچ کو سنائے جانے کے بیچ توازن قائم رکھنا پڑتا ہے۔ ہم فلسطینی ترجمہ کرتے ہیں کیونکہ ہمیں کرنا پڑتا ہے—کیونکہ خاموشی مٹائے جانے کا آخری مرحلہ ہے۔ لیکن ترجمہ ایک غیر جانبدار عمل نہیں ہے—یہ طاقت کی جارحیت سے بھرا ہوا ہے۔ فلسطینی مترجم محض لسانی مشکلات سے نہیں جوجھتا؛ وہ اُن ڈھانچوں سے بھی لڑتا ہے جو طے کرتے ہیں کہ اس کے الفاظ کو سنا جائے گا، بگاڑا جائے گا یا یکسر نظر انداز کر دیا جائے گا۔ میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح انگریزی اخبارات ایک مہاجر کیمپ پر بمباری کو یوں بیان کرتے ہیں: "an airstrike killing civilians" (ایک فضائی حملہ جس میں شہری مارے گئے) .یعنی ایک ایسا جملہ جو مجرم اور مظلوم دونوں کو چُھپا دیتا ہے۔ اور میں جانتی ہوں کہ جب میں عربی سے انگریزی میں کوئی گواہی یا کہانی ترجمہ کرتی ہوں تو میں کسی خالی جگہ میں نہیں لکھ رہی ہوتی، بلکہ ایک ایسے بیانیے میں داخل ہو رہی ہوتی ہوں جو پہلے ہی لسانی پردہ پوشی اور اجتناب کی بنیاد پر تراشا گیا ہے۔ اصل اخلاقی کشمکش یہی ہے: اگر میں عربی کے سچ کو اسی کی شدت سے لاؤں تو مجھے "غیر جانبدار انگریزی" کے خلاف جانا پڑتا ہے—ایسی انگریزی جو وضاحت کی جگہ مصلحت کو اور مزاحمت کی جگہ مظلومیت کو پسند کرتی ہے۔
اگر میں اصل آواز کو جوں کا توں پیش کروں—غصے بھری، الزام لگاتی، اور بالکل درست—تو خطرہ ہے کہ میرا ترجمہ حد سے زیادہ سیاسی یا جانبدار قرار دے کر رد کر دیا جائے گا۔ اور اگر میں اس آواز کو ہلکا کر دوں، تو خود انہی ڈھانچوں کو دوبارہ زندہ کر دیتی ہوں جو ہمیں خاموش کراتے ہیں۔ میں مٹائے جانے اور الزام لگانے کے بیچ ایک رسی پر چلتی ہوں—سچ کو اُس زبان میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتی ہوں جو ہمیشہ اُسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔
یوں میں ڈبلیو۔ ای۔ بی۔ ڈو بوا کے بتائے ہوئے “دوہرئے شعور” میں زندہ رہتی ہوں—ایک ایسا شعور جس میں انسان خود کو دنیا کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ساتھ ہی اُس اندرونی وجود سے بھی باخبر رہتا ہے جسے دنیا ماننے سے انکار کرتی ہے۔ فلسطینی مترجم دو جہانوں میں رہتا ہے مگر دونوں میں مکمل طور پر قبول نہیں ہوتا: وہ جنگ کی فوری حقیقت میں اتنا گندھا ہوتا ہے کہ اُس سے متوقع غیر جانبداری اختیار نہیں کر سکتا، اور ترجمے کی دوری میں اتنا ڈوبا ہوتا ہے کہ اُس دکھ کی سادی سچائی میں پوری طرح جی نہیں سکتا۔ غزہ کا ترجمہ کرنے کا مطلب ہے اپنے ہی دکھ کا ترجمہ کرنا اور یہ ناممکن کوشش کرنا کہ اُسے ان لوگوں کے لئے قابلِ فہم بنایا جائے جو اُسے کبھی مکمل طور پر نہیں سمجھ سکیں گے۔
سوال مگر باقی رہتا ہے: کون سن رہا ہے؟ کیا یہ الفاظ، جو لسانی اور ثقافتی سرحدوں کو عبور کرتے ہیں، اُن دیواروں کے پار پہنچتے ہیں جہاں پہلے ہی لوگ جانتے اور رو رہے ہیں؟ یا یہ محض ایک تماشہ ہیں، ایک اور اندراج فلسطینی دکھوں کے اُس ریکارڈ میں جسے دنیا ترس کے ساتھ دیکھتی ہے مگر عمل نہیں کرتی؟ فلسطینی مترجم اس یقین سے جڑا رہتا ہے کہ جب تک الفاظ باقی ہیں، نام پکارے جاتے ہیں، اور نظمیں پڑھی جاتی ہیں، تب تک غزہ کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ پھر بھی ایک خوف قائم رہتا ہے: کیا دنیا سننے کے لئے تیار ہے یا ہم صرف اپنے غم کی بازگشت میں بات کر رہے ہیں؟
غزہ کی جنگ کے دوران، میں نے وہ آوازیں ترجمہ کیں جو ورنہ کھو جاتیں—ایسے الفاظ جو اگر صرف عربی میں رہتے تو شاید ملبے سے باہر نہ آ پاتے۔ اسی مجموعے میں، جہاں ایک بچی کا لباس کھلنے ہی والا تھا، جیسے کوئی کلی شگوفہ بننے کو ہو، مگر دھوئیں نے اُسے روک دیا، ایک اور بچہ خواب دیکھتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے کپڑوں کے ساتھ دھویا جائے۔ فاطمہ حسونہ کی یہ سطریں :“لا رغبةَ لي بالحلمِ الآن، ولا رغبةَ لي بالمدينة” (مجھے اب خواب دیکھنے کی خواہش نہیں رہی، نہ ہی شہر کی) اور زیادہ شدت کے ساتھ حرکت کرتی ہیں—غیر حقیقی حقیقت اور حقیقت کے بیچ، گھریلو مانوسیت اور وجودی خوف کے بیچ۔ اس کا کردار خواب اور بیداری کے درمیان پھنسا ہوا سوچتا ہے کہ کیا وہ بھی اُس واشنگ مشین میں ڈال دی جائے گی جس میں اُس کی ماں کپڑے ڈالتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ جنگ کے دھبوں سے صاف ہو جائے، ایک بھیگی ہوئی قمیض کی طرح نچوڑ دی جائے۔ بچگانہ معصومیت سے یہ یقین کہ شاید ایک واشنگ مشین بھی جنگ کے داغ دھو سکتی ہے، اس کچل دینے والے سچ سے ٹکرا جاتا ہے کہ کوئی مشین، کوئی ماں کا ہاتھ، جو ہو چکا ہے اُسے واپس نہیں لا سکتا۔
جب میں اس تحریر پر کام کر رہی تھی، تو آخری جملوں سے نبرد آزما تھی: "دنیا، جو کبھی میرے ہاتھوں میں اتنی چھوٹی تھی، میری انگلیوں سے پھسل گئی۔ اور کسی خواب میں—نہیں جانتی کون سا—میں نے اپنی زندگی کھو دی جو کبھی میری تھی۔" یہ صرف صحیح الفاظ ڈھونڈنے کی بات نہیں تھی، بلکہ اُس بوجھ کو منتقل کرنے کی کوشش تھی جو جملہ کہنے سے انکار کر رہا تھا۔ میں نے سوچا: کیا انگریزی عربی کے اُس جسمانی پن کو سنبھال سکتی ہے، وہ جسامت جس کا تقاضا عربی کرتی ہے؟ کیا وہ بوجھ محفوظ رہے گا یا محض ایک بے جان، دور کا استعارہ بن جائے گا؟
جب میں نے یہ مضمون انگریزی میں لکھا، فاطمہ حسونہ زندہ تھیں۔ اُن کے الفاظ گونج رہے تھے، اُن کی آواز ہمارے جھلسے ہوئے شہر سے اٹھ رہی تھی، گواہی دے رہی تھی اور مٹائے جانے سے انکار کر رہی تھی۔ لیکن اب، جب میں اپنے ہی مضمون کو عربی میں ترجمہ کر رہی ہوں تاکہ یہ "Encounters" میں شائع ہو سکے، میں اُس تکلیف دہ علم کے ساتھ کرتی ہوں کہ فاطمہ کو اسرائیلی قبضے نے شہید کر دیا ہے۔ یہ ترجمہ اب محض لسانی عمل نہ رہا؛ یہ بار بار لوٹنے والے سانحے کا آئینہ بن گیا: انسان کا مٹ جانا، جبکہ صرف اُس کے الفاظ باقی رہ جاتے ہیں تاکہ مٹائے جانے کا انکار کر سکیں۔ یہی غزہ کی زندگی ہے، ایک ایسی زندگی جو نہ صرف زبان بلکہ اپنے وجود کو کھو دینے کے خطرے سے دوچار ہے۔
آج میں فاطمہ کے بارے میں لکھ رہی ہوں۔ کل یہ الفاظ میرے بارے میں آخری نشانی بن سکتے ہیں، اگر مجھے بھی وہی انجام ملے۔ اور شاید ایک دن، کوئی میرے لئے سوگ کرے، جیسے آج میں اُس کے لئے کرتی ہوں—خاموشی میں، اندر ہی اندر، ایک ایسے دل کے ساتھ جو اتنا بھرا ہوا ہے کہ لفظ اُس کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ کہانیاں صرف جنگ کو دستاویزی شکل نہیں دیتیں؛ یہ ایسے سوال اٹھاتی ہیں جن کے کوئی جواب نہیں، اور ہر بے گھر فلسطینی کی ہڈیوں میں درد بن کر بسی رہتی ہیں۔ مثلاً تیسیر کا بھٹکتا ہوا کردار پوچھتا ہے: "کیا غزہ کبھی اتنا خوبصورت تھا؟ یا بے گھر لوگ ہمیشہ اُس کو رومانوی بنا دیتے ہیں جو سب کچھ کھو چکے ہوں"اس میں وہ جلاوطنی کا ظالمانہ تضاد قید کرتا ہے: ایک جگہ کو کھونا ہی اُس کو اُس وضاحت سے دیکھنے کا ذریعہ بناتا ہے جو وہاں رہتے ہوئے ممکن نہ تھی۔ اسی طرح، حسونہ کا خواب دیکھنے والی لڑکی—جسے جاگنے پر بھی ایک اور بے گھری کا علم ہوتا ہے—اس لامتناہی چکر کی عکاسی کرتی ہے جس میں فرار اور واپسی، اور ایک گھر کی آرزو شامل ہے جو ہمیشہ دور ہی رہتا ہے۔
ان کہانیوں کو ترجمہ کرتے وقت میں محض الفاظ کو عربی سے انگریزی میں نہیں ڈھال رہی تھی—میں اُن ساختی رکاوٹوں کے خلاف لڑ رہی تھی جو یہ طے کرتی ہیں کہ کس قسم کا فلسطینی دکھ “قابلِ قبول” ہے۔ ایک ترجمہ جو بہت زیادہ جاندار، بہت زیادہ انسانیت بھرا، بہت زیادہ براہِ راست ہو، اُسے سیاسی قرار دے کر رد کیا جا سکتا ہے؛ جبکہ ایک ایسا ترجمہ جو بہت مدھم ہو، وہی مٹائے جانے میں حصہ دار بن سکتا ہے جسے روکنا مقصود ہے۔ یہ ہے فلسطینی مترجم کا ناقابلِ حل تضاد: ترجمے کے اصولوں کے ساتھ وفاداری اپنے آپ کو غائب کر دینے کے مترادف ہے، اور تدبیر کے ساتھ ترجمہ کرنا تحریف کے امکان کو جنم دیتا ہے۔
یوں میں آغاز پر واپس آتی ہوں۔ اُس جگہ نہیں جہاں یہ مضمون شروع ہوا، بلکہ اُس جگہ جہاں ہر فلسطینی ترجمے کا آغاز ہوتا ہے: اُس ناقابلِ برداشت علم کے ساتھ کہ دنیا شاید کبھی سچ مچ نہ سن سکے، اور اُس ناقابلِ برداشت انکار کے ساتھ کہ یہ خاموشی آخری لفظ بن جائے۔ غزہ سے ترجمہ کرنا ٹوٹے ہوئے جملوں اور ٹوٹی ہوئی زندگیوں سے بنا ایک پل پار کرنے جیسا ہے، ایسی کہانیاں اٹھائے ہوئے جو ناقابلِ برداشت حد تک بھاری اور مقدس ہیں۔ یہ اُس ہوا سے بات کرنے جیسا ہے جو شاذ و نادر جواب دیتی ہے، ایسے نام پکارنے جیسا ہے جو صرف بولنے والی کے دل میں گونجتے ہیں۔ پھر بھی میں بولتی ہوں۔ میں ترجمہ کرتی ہوں، اس لیے نہیں کہ مجھے یقین ہے دنیا بدل جائے گی، بلکہ اس لیے کہ ترجمہ نہ کرنا ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہوگا—یہ اعلان ہوگا کہ وہ بچی جس کا لباس کھلنے والا تھا کبھی موجود نہیں تھی، وہ ماں جو اپنے بچے کو مویشیوں کے ٹرک کی اگلی سیٹ پر تھامے بیٹھی تھی کبھی حقیقی نہیں تھی، اور فاطمہ حسونہ کی وہ شدید خواہش کہ جنگ سے دھل کر پاک ہو جائے، کبھی کہی ہی نہیں گئی تھی۔ میں یہ ہونے نہیں دے سکتی۔ میں اُن کے الفاظ کو ملبے میں تحلیل نہیں ہونے دے سکتی۔
جیسا کہ دوستوئیفسکی نے لکھا: "میں ہزاروں اذیتوں میں بھی زندہ ہوں۔"میں بھی اُن اذیتوں میں موجود ہوں—صرف بطور گواہ نہیں بلکہ بطور مترجم۔ بطور ایک آواز۔ اور اگر وہ کہانیاں جو میں سناتی ہوں اُن کو خوش آمدید نہ کیا جائے _ یا اُن کو بے حسی سے مسترد کیا جائے—تو بھی میں اُنہیں سناؤں گی، کیونکہ اُن کا سنایا جانا ہی مزاحمت ہے۔ کیونکہ شہیدوں کو نام دینا اُن کے غائب ہو جانے کی مزاحمت ہے۔ کیونکہ غزہ کے بارے میں انگریزی میں ایک جملہ لکھنا بھی عالمی بے حسی کے ڈھانچوں کے خلاف بغاوت ہے۔ جیسا کہ شیکسپیئر کی ایک مظلوم ہیروئن نے کہا تھا: "میری زبان میرے دل کے غصے کو بیان کرے گی۔ ورنہ میرا دل، اُسے چھپاتے چھپاتے، ٹوٹ جائے گا۔" مجھے نہیں معلوم کہ دنیا کبھی واقعی سنے گی یا نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ الفاظ اُن دیواروں سے آگے جا سکیں گے جہاں پہلے ہی لوگ ماتم کر رہے ہیں۔ لیکن میں یہ جانتی ہوں: اگر غزہ کی کہانیاں اُس خلا کے پار لے جائی جانے کی منتظر ہیں، تو میں اُنہیں لے جاؤں گی۔ اگر سمندری پرندے اب بھی ساحل کے منتظر ہیں، تو میں لکھتی رہوں گی تاکہ اُنہیں وجود دیا جا سکے۔
